ایڈیسن کی زندگی اور اسکی ایجادات کے بارےمیں ایک مضمون

ایڈ یسن کی زند گی اور اس کی ایجادات کے بارے میں ایک مضمون

ایڈمزمیلٹن لیکھتا ہےایک دن ایڈ یسن ، فیراڈے کی تمام تصنیفات خرید لایا اوررات کو بیٹھ کر اس بلندی کے مطالعے میں غرق ہوگیا اور وہیں سوگیا۔ صبح جب میری آنکھ کھلی تو وہ بیٹھا پڑھ رہا تھا۔پھرہم دونوں ناشتہ کرنے کیلیے کوئ ایک میل دور ایک ہوٹل میں جارہے تھے۔ ایڈ یسن نے جو کچھ پڑھا تھا اس سے اس کا دماغ بھڑک اٹھا تھا۔ا یکا ایکی اس نے مجھ سے کہا ایڈمز مجھے اتنا کام کرنا ہے اور زندگی اس قدر مختصر ہے کے مجھے جلدی کرنی پڑے گی اتنا کحہ کر وہ نا شتے کے لیے دوڑنے لگا۔
ہم روز مرہ کی زندگی میں اکثر جن چیزوں سے استفادہ کرتے ہیں ان میں سے اکثر سائنس ہی کی قدیم و جدید ا یجادات ہیں۔ ان تمام ایجادات کے پیھچے عظیم سائنس دانوں اور موجدوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے بڑی محنت سے کام کیا اور اعلیٰ مکام حاصل کیا۔ ا نہی میں سے ایک نام تھا مس ایلوایڈ یسن ہے ۔ایڈ یسن شائد تاریخ کا عظیم ترین موجد تھا۔ اس نے صرف ۳ ماہ اسکول میں تعلیم حاصل کی لیکن اس کے بلب اور فونوگراف کی ایجاد نے لاکھوں لوگوں کی زند گییوں کو بدل دیا۔ایڈیسن نے اپنی زندگی میں ایک ہزار ترانوے ایجادوں کو پٹینٹ(جملہ حقوق محفوظ) کروایا۔ ایڈیسن کی انسانیت کے لیے اس عظیم خدمت کے حوالے سے ہنری فورڈ نے ایک دفعہ تجویز کیا کہ دور حیات کو ایڈیسن کا عہد کہنا چاہیے۔ ایڈ یسن نے غیر معمولی ذہانت کی تعریف ان الفاظ میں کی : ایک فیصلہ ا لہام (خیال) اور ننانوے فیصلہ پسینہ(محنت)۔
اس نے اس یقین کو ہر وقت کام کر کے ثابت کیا کہ وہ صرف کھانے کے وقت رکتا تھا۔ ایڈ یسن کو ہر چیز عجیب و غریب محسوس ہوتی تھی۔اس نے ادویہ سازی میں تجربات کیے اور لوگوں کے آرام کے لیے ایک پروگرام تجویز کیا۔وہ ریڈ یو کی ایجاد کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا اور اس نے ا یٹمی توانائی کے استعمال کے بارے میں پیش گوئی کی۔ ایڈ یسن نے ہمیشہ ایسی چیز یں بنانے کی کوشش کی جو خراب ہوے بغیر عام طریقوں کے تحت کام کر سکیں اور آسانی سے ان کی مرمت کی اور دوسروں کی ا یجادوں کو بہتر بنایا۔

ا بتد ائی زندگی

ایڈ یسن ملن اوہایو میں ۱۱ فروری ۱۸۴۷ء کو پیدا ہو ے۔ سموئل ایڈ یسن اور نینی ایڈ یسن کا ساتواں بچہ تھا۔ ایڈ یسن کے آباوا جداد ولند یزی تھے اور ماں کینیڈا کی رہنے والی تھی۔ ۱۸۳۷ء میں یہ خاندان ایمسڑڈیم سے امریکہ چلا آیا تھا۔لڑکے کے تجسس اور شوق کو دیکھتے ہوے اس کا خاندان اس کو ایلوا کے نام پکارتا تھا۔ ایلوا ان سے مسلسل سوال پوچھتا رہتا تھا۔مرغی کے ا نڈے سے چوزہ کس طر ح نکلتا ہے؟پرندے کو کیا چیز اڑاتی ہے؟پانی آگ کو کیو بجھا دیتا ہے؟اس کی اسکول ماں ٹیچر بھی اس کے چند سوالوں کا جواب نہ دسکی۔اگر کو ئی اس کے سوال کا جواب نہ دے پاتاتو وہ خود تجربے سے اس کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ایک دن ایلوا نے سکھا کہ غبارے اس لیے اڑتے ہیں ان میں گیس بھری ہوتی ہے۔لہذا اس نے ایک لڑکے کو سڈلٹ سفوف کی تین گولیا کھلا دیں ایلوا کو یقین تھا کہ جب لڑکے کے معدے میں گیس بھرے گی تو وہ اڑنا شروع کردے گا۔ لیکن اس کے بجاے وہ لڑکا بیمار ہو کر زمین پر لیٹ گیااوردنیا اسے اپنے سامنے گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔

سات سال کے عمر میں ایلوا اپنے والدین کے ساتھ ہو ران مک منتقل ہوگیاجہاں اس کے والدین نے دانوں اور کاٹھ کباڑ کا کاروبار شروع کیا۔ ایلوا ایک پبلک اسکول میں داخل ہو گیااور جلدہی استاد کو بہت زیادہ سوال پوچھ کر پریشان کردیا۔استاد بچوں سے جو سوال پو چھتے تھے، مارنے کے لیے بھاری چمڑے کا چابک استعمال کر تے تھے۔ایک دن ایلوا استاد کوضلعی اسکول انسپکڑکو یہ بتا تے ہوے سنا کے ایڈ یسن کا بیٹا گندا ہے اور پڑھائی میں نا لائق ہے۔ ایلوا بھاگ کر گھر گیا اور اپنی ماں کو بتا دیا۔وہ سیدھی استاد کے پاس گی اور اسے ناقابل یقین الفاظ میں بتا یا( ایلوا چھوٹی ا نگلی میں استاد کے پورے جسم سے زیادہ عقل رکھتا ہے) اور اس نے اسے اسکول سے نکل لیا۔اس طرح ایلوا ایڈ یسن کی باقاعدہ تسلیم صرف تین ماہ جاری رہ سکی۔
اس کی ماں نے اسے کھیل تما شے کے زریعے سکھانے کا ارادہ کیاجو اس وقت کے لحاظ سے غیر معمولی تھا۔اس کی ماں نے پڑھائی کو اس کے لیے کھیل بنا دیا۔پہلے تو وہ اس پر حیران ہوالیکن بعد میں بہت خوش۔جلد ہی اس نے اتنی تیزی سے سکھنا شروع کر دیااس کی ماں اس کو خود مزید نہ پڑھا سکی۔
جب ایلوا نو سال کا ہوا تو اس کی ماں نے اسے رچرڈبے پارکر کی لکھی ہوئی ایک کمیسڑی کی کتا ب لا کردی جو انیسویں صدی کے وسط کا ایک مشہور استاد تھا۔ ایلوا ایڈ یسن نے اس کی تحروں کو ماننے سے انکار کر دیا۔اس نے مصنف کو غلط ثابت کر نے کے لیے ہر تجربے کو خود دہرایا۔ ایلوا کے پاس مختلف کیمیکزکی سو سے زیادہ بو تلیں تھیں۔اپنے خا ندان کے افراد کو ان سے دور رکھنے کے لیے اس نے سب بو تلوں پر زہر لکھ دیا تھا۔ ایلوا کے ایک دوست چارلس بیچلر کا کہنا ہے(ایک رات میں واپس لوٹا تو میں نے د یکھاایڈ یسن بیٹھا ہوا ہے اور اس کے آگے علم کیمیا اور دوسری کتابوں کاڈھیر لگاہوا ہے جو کوئی پانچھ فٹ تک کا اونچا ہے۔یہ اس نے نیو یارک،لند ن،اور پیر س سے میگوائی تھیں۔ان کا مطالعہ وہ دن رات کرتا ۔چھ ہفتوں میں اس نے ساری کتابے دیکھ ڈالی تھیں اور ان کے خلاصوں پر مبنی ایک جلد تیار کر لی تھی۔وہ فار مولوں پر بھی کئی تجربات کر چکا تھا۔ نو سے بارہ سال کی عمر میں اس نے ہیوم کی تاریخ انگلستان،سلطنت روم کا عروج و زوال،پوٹر کی ڈ کشزی آف دی ساسئنسز اور ٹیوٹن کی پرنسپل آف ٹیچرل فلا سفی جیسی کئی کتاب پڑلی تھیں۔
بارہ سال کی عمر میں اس کو گرنیڈ ٹرنک ریل گاڑی میں ٹرین بواے کی حثیت سے نوکری مل گی۔وہ اس ریل گاڑی میں (جو پورٹ ہوران اور ڈ یٹرائٹ کے درمیان چلتی تھی)ا خبار،ٹافیاں،چا کلیت،اور مونگ پھلی بچتا تھا۔ اپنے فارغ اوقات میں وہ ریل گاڑی کے خالی ڈبے میں ا پنی کیمیاو ی اشیا کے ساتھتجربات کرتا تھا۔حتی کے اس نے ایک پریس خرید کر اپنا ایک اخبار( ہفت روزہ ہیرالڈ) شائع کرنا شروع کردیا ۔ یہ منفر د ہونے کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ بکنے لگا۔یہ اخبار چلتی ریل گا ڑی میں شائع ہونے والا پہلا اخبار تھ

ا یلوا کے ر یل گاڑی میں کیمیاتی تجربات نے اس کو مشکل میں پھنسا دیا۔ایک دن فارسفورس کی قلم میں شعلے بھڑک اٹھے جس سے ریل گا ڑی کے ڈ بے میںآگ بھڑک ا ٹھی۔اس واقع پر کنڈیکٹر نے ایلوا کے کان پرزور دار مکا رسید کیا اور اسے اس کی کیمیائی ا شیاء ،پرنٹنگ پر یس اور دوسری چیزوں سمیت ڈبے سے باہر پھینک دیا۔اس واقعہ کی وجہ سے ایلوا کو ایک کان سے بہرہ ہونا پڑا۔ تاہم ایلوا اپنے بہرے پن کو ایک اور واقعے سے منسوب کرتا ہے۔جب وہ چلتی گا ڑی میں سوار ہونے کی کوشش کررہا تھا کنڈ یکٹر اس کو کان سے پکڑ کر کھنچ کر پلیٹ فارم تک لایا ۔ایڈ یسن نے کچھ سال بعد کہا( میں نے ا پنے سر میں کوئی چیز ٹوٹتی ہوئی محسوس کی)۔میرا بہرہ پن اس وقت سے شروع ہوا اور پھر اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔

ا یڈ یسن اگر چہ مکمل طور پر بہرہ نہیں ہوا لیکن آخری برسوں میں وہ چیخ کی آواز بھی بمشکل ہی سن سکتا تھا۔ آ پریشن سے اس کا بہرہ پن ختم ہو سکتا تھالیکن اس نے سرجری کرانے سے ا نکار کر دیا۔ا یڈ یسن نے بہرا ہونے کا برا خیال نہیں کیا بلکہ یکسو ئی حاصل کرنے کا آسان زریعہ خیال کیا۔ اس کے کان کی خرابی کی وجہ سے ا یڈیسن ایک بارموت کے منہ سے بچا۔ ہوا یہ کہ ایڈ یسن نے پرانی کتابوں کا ایک بڑا ڈھیر دوڈالر میں خرید لیا اور وہ اسے لے کر رات کے تین بجے گھر کی طر ف چل دیا۔راستے میں اسے ایک پہرے دار نے دیکھا اور چور سمجھ کر رکنے کا حکم دیا لیکن ایڈ یسن بہرہ ہونے کی وجہ سے سن نہ سکا ۔ پہرے دار نے اس پرگولی چلادی مگر گولی ایڈیسن کے کان کے پاس سے گزرگی۔اس طرح یہ عظیم موجد نشانہ خطا ہونے سے بچ گیا۔
ر یل گا ڑی کے ڈبے میں آگ لگنے کے بعد ایلوا نے اسٹیشنوں پر اخبار بچنا شروع کر دیئے۔ایک دن کلیمنز ریلوے ا سٹیشن پر ایلوا نے دیکھا کہ ایک سامان لے جا نے والاٹھیلا اسٹیشن ملا زم کے بیٹے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ایلوا نے بچے کو بروقت بچالیا ۔ شکرگزارا سٹیشن ملا ز م نے اسکے بدلے ایلوا کو ٹیلی گراف استعمال کرنا سکھا دیا۔۱۲سال کی عمر میں ایلوا کو اونٹاریو ریلوے ا سٹیشن کینیڈا میں ٹیلی گراف کی نوکری مل گئی۔اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ہر گھنٹے بعد ٹیلی گراف کے زریعے ٹورانٹو پیغام بھجیے۔ا یڈ یسن نے اسے وقت کا ضیاع خیال کیا۔اس نے چالا کی سے مشین کا ایک پرزہ گھڑی کے سا تھ جوڑدیا جو ہر گھنٹے بعد خود بخود پیغام بھچ دتا تھاچاہے وہ سو رہا ہوتا۔یہ ا یڈیسن کی پہلی ایجاد تھی ۔ اس کا خمیازہ اسے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے کی صورت میں اس وقت بھکتنا پڑا جب سپرنٹنڈ نٹ نے اسے سو تے ہوئے پا یا۔ ۱۸۶۳ء میں موسم خزاں میں ایڈیسن امریکہ واپس لوٹ گیا اور شہری جنگ کے دوران ٹیلی گراف آ پریٹر کے طور پر ایک شہر سے دوسرے شہر مڑگشت کر تا ر ہا۔

ابتدائی ا یجا دات

     ء۱۸۶۸ء میں بوسٹن میں ایڈیسن نے ٹیلی گرافر کے طور پر کام کیا۔وہا اس نے اپنی پہلی ایجاد مکمل کی جس کو اس نے بیچنے کی کو شش کی ۔ وہ ووٹ ر یکارڈ کرنے والی ایک برقی مشین تھی جو بالکل مختلف ریاستوں کی قانون ساز مجلسوں میں استعمال ہونے والی مشین سے مشابہ تھی۔یہ مجلس کے ارکان کے ووٹوں کو ایک بڑے بورڈ پر ریکارڈ کرتی تھی۔ایلوا ایڈیسن اسے واشنگٹن لے گیا اور کانگریس کو بچنے کی کوشش کی۔ایک کمیٹی نے اس کی بات کو سنا مگر کمیٹی کے چیئرمین نے اسے بتا یا کہ یہ مشین کانگریس کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی: یہ حاضری لگانے کے لیے ۴۵ منٹ لیتی ہے۔اتنی دیر میں تو ہم ان ووٹوں کی تجارت کر سکتے ہیں۔تمہاری مشین کو اسے نا کام بنا نا چا ہیے تھا۔ایلوا ایڈ یسن اس سلوک سے بہت ناراض ہوا اور کہامیں آ ئندہ ایسی کوئی چیز ایجاد نہیں کروں گاجس کی ضرورت نہ ہو۔اور اس نے اپنے الفاظ کی لاج بھی رکھی۔اس وقت کے بعد اس نے خود کو اپنے ان الفاظ دنیا کی اشد ضرورت کے لیے و قف کر دیا۔
ء۱۸۶۹ میں ایلوا ایڈیسن بوسٹن سے نیویارک آ گیا۔اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھااور اس نے گولڈانڈیکیڑ کمپنی کے ایک ملازم کے د فتر میں سونے کے لیے اجازت حاصل کرلی ۔ ایلوا ایڈ یسن اپنا زیاد ہ تر وقت ا سٹاک ٹکر کو سمجھنے کے لیے صرف کر تا تھا۔ ٹیلی گراف قسم کی مشین تھی جو کمپنی بروکرز کوسونے کی قیمت بتانے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ کچھ دنوں بعد اسٹاک ٹکر ٹوٹ گیا اور ایڈ یسن نے اس کو ٹھیک کر کے مینیجر کو حیران کردیا کیونکہ باقی سب لوگ اسے ٹھیک کرنے میں ناکام ہو چکے تھے۔اسی وقت مینیجرنے اسے سپروائزر کی ملازمت کے لیے۳۰۰ ڈالر کی پیشکش کی جو اس وقت ایک بڑی ر قم تھی۔
ایڈیسن کے مصروف دماغ نے اسٹاک ٹکر پر اپنے تجربات کو جاری رکھا۔اس نے اسے اتنا بہتر بنا دیا کہ گولڈاینڈ اسٹاک ٹیلی گراف کمپنی کے صدر ، جزل مارسل لیفرٹس نے اس میں دلچسپی ظاہر کی۔ لیفرٹس نے ا یڈیسن کے لیے پیغا م بھیجا اور پوچھا کہ وہ اپنے اسٹاک ٹکرکو پیٹنٹ کر وا نے کے لیے کیا رقم لے گا۔ایڈ یسن نے ایک فیصلہ کیا کہ وہ ۵۰۰۰ ڈالر کہے گا اور ۳۰۰۰ ڈالر تک قبول کرلے گا۔ اس نے ہچکچا تے ہو ئے کہا اچھا جزل فر ض کریں کے آپ مجھے پیشکش کرتے ہیں.....، لیفر ٹس نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر کہا کیا تمہیں ۴۰۰۰۰ ڈا لر قبول ہیں؟ ایک لمحے کے لیے ایڈ یسن کے لیے خود پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔اس نے اپنے آپ کو سیدھا کھڑا رکھنے کے لیے میزکو پکڑ لیا اورآہستہ سے کہا ہاں! میرے خیال میں یہ ٹھیک رہے گا۔

مینلو پارک کا جا دو گر

۲۳سال ا یڈ یسن نے لیفرٹس سے حاصل شدہ رقم سے نیوآرک،نیوجرسی میں اپنی پہلی ورکشا پ قائم کی۔ اس جگہ اس نے اپنے بنائے ہوئے اسٹاک ٹکر کی تیاری شروع کردی۔۱۸۷۴ء میں اس نے ٹائپ رائٹر کے فولادی اجزاء کو لکڑی سے بدل کر بہتر بنایا ۔ اس نے لفظوں کی تر تیب اورسیاہی کی تقسیم کو بھی درست کیا ۔ ایڈ یسن نے ٹائپ رائٹر کواتنا بہتر کرلیا مشین کے زریعے ہا تھ کی بہ نسبت زیادہ تیز رفتاری سے لکھنا ممکن ہو گیا ۔۱۸۷۶ء میں ایڈ یسن مینلو پارچلا آیا ۔ اسی سال اس نے ٹیلی فون میں کار بن ٹرانسمیڑکا اضافہ کر کے اسے بہتر بنا یا۔ یہ ٹیلی فون کو عملی بنا نے کے لیے ایک انتہائی اہم قدم تھا۔اس تبد یلی سے پہلے لوگوں کو ٹیلی فون میں بہت بلند آواز میں بو لنا پڑتا تھا ۔
۱۸۷۷ء میں ایڈ یسن کے ایجاد کردہ فونوگراف یا ریکارڈ پلیئر کو دنیا کی سب سے جدت پسند ایجاد کادر جہ دیا گیا ہے۔اس و قت تک کیسی نے بھی فونوگراف کا عملی نمونہ نہیں بنایا تھااور اس کا نمونہ بالکل نیا اور اچھوتا تھا۔ ایڈ یسن نے ہمیشہ فونوگراف کو اپنی پسندیدہ ایجا د قرار دیا۔
فونوگراف کا خیال اسے تب آیا جب وہ ٹیلی گراف پیغاما ت کو خود کار طریقے سے ریکارڈ کرنے کے طریقے دریافت کرنے کی کوشش کرر ہاتھا ۔وہ ایک گھومتی ہوئی پلیٹ پررکھی ہوئی پیپرڈسک پرپیغامات ریکارڈ کرنا چاہتا تھا۔وہ ڈسک آج کل کے فونوگراف کی طرح ہی گھومتی تھی۔ ایڈ یسن نے اپنے ٹیلی گراف تجر با ت سے سیکھا کہ ڈایا فرام کس طر ح بنا یا جا تا ہے یا ڈسک میں ا ر تعا ش کس طر ح ہو تا ہے جو آواز کی ا ر تعا شی مو جو ں پر رد عمل ظا ہر کرے۔اس نے ایک کھلو نا بنا یا جس میں ایک قیف خا ص پر کیب سے جڑی ہو ئی تھی۔اس کے آ خر پر ایک کا غز لگا دیا جس میں کھلو ناآد می آری پڑ ے ہو ئے تھا۔جب ایڈ یسن نے قیف میں چلا یا میر ی! چھ ٹا بھڑ کا بچہ ر کھتی ہے۔اور آ د می نے لکڑی کا ٹنا شر وع کر دی۔ ایڈ یسن نے فیصلہ کیا کے وہ کسی چیز کو حر کت د ینے کے بجا ئے ان مو جو ں کو ر یکا رڈ کر سکتا ہے ۔ تب وہ ا پنے کہے ہو ئے ا لفاظ کو ر یکا رڈ سے دو با رہ پیدا کر سکتا ہے۔ ایڈ یسن نے ایک خا کہ بنا یا اور اپنی ور کشا پ کے فو ر مین جا ن کرو سی کے حو ا لے کر کے حکم د یا یہ بنا ؤ ۔ کرو سی نے خا کہ کامطا لعہ کیا لیکن اس نے اسے ا لجھن میں ڈا ل د یا ۔ اسے ایسی چیز بنا نے کے لیے کہا گیا جو نہ تو کیمیا ئی تھی اور نہ بر قی، بلکہ میکا نیکی تھی۔عا م طو ر پر ایڈ یسن نے کو ئی بھی چیز ایسی ا یجا د نہیں کی جا مکمل میکا نیکی ہو۔کرو سی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ کس استعما ل ایڈ یسن کو یہ آ لہ بنا نے پر مجبو ر کیا لیکن اس نے یہ خا کہ لیا اور اس کو بنا د یا۔
جب کر و سی ،سلنڈر نما مشینی پر زہ ایڈ یسن کے پا س لے کر آ یا تو پو چھا کہ یہ کیا ہے۔ ایڈ یسن نے بلا ارادہ کہا اوہ!یہ مشین بو لے گی۔ اس نے قلعی کے ورق کو سلنڈر کے گر د لپیٹا میر ی! چھ ٹا بھڑ کا بچہ ر کھتی ہے۔ اس نے یہ الفا ظ مشین کے ما ؤ تھ پیس میں بو لے ۔مشین نے ایڈ یسن کے الفاظ د ہر ا دیئے۔کرو سی کا چہرہ حر ت سے سفید ہو گیا۔ ایڈ یسن خو د بھی حیرا ن رہ گیا ۔

(بر قی رو شنی (بلب

بر قی رو شنی (بلب)کیا ایجا د فو نو گر ا ف کی طر ح جد ت پسند نہیں تھی ۔ بہت سے دو سرے لوگوں نے اس خیا ل پر سالہا سا ل کا م کیا تھا۔ رو سی الیکڑ یکل ا نجینئر پا ل جیبلو کو ف نے پیر س کے با زاروں کو ۱۸۶۷ء آر ک لا ئٹ سے رو شن کیا لیکن ایڈ یسن چھو ٹی ر و شنیاں چا ہتا تھا جن کو گھر و ں اور د فتروں میں استعمال کیا جا سکے۔در حقیقت وہ گیس کا متبا دل چا ہتا تھاجو اس و قت رو شنی کا بنیادی زر یعہ تھی۔
۱۸۷۹ء میں ایڈ یسن نے بر قی روشنی کا کامیاب ا صول ڈھو نڈ نکا لا ۔اس نے منا سب فلا منٹ یا تا رتلاش کر نے کے لیے دوسال صرف کیے جو برقی روگزرنے پر روشنی دے سکے۔اس نے پختہ فلا منٹ کی تلاش میں ایک ملازم کو ا میزون اور دوسرے کو جاپان کے جنگلوں میں بھیجا۔اس نے تقریبا تین ہزار چیزوں کو فلا منٹ کے لئے آزمایا تھا ۔
۱۹ اکتوبر ۱۸۷۹ء کو بہت سی کوششوں کے بعدآخر کار ایڈ یسن کا ربو نا ئزڈ دھاگے کا فلامنٹ بلب میں لگانے میں کامیاب ہ گیا ۔بلب نے بہت اچھی روشنی دی ۔ ۲۰ اکتوبر کی صبح پو پھٹنے تک قیمتی بلب جل رہا تھا۔وہ تمام دن جلتا رہا ۔ آخر کار ۲۱ اکتوبر کو رات ڈ یڑھ بجے ایڈ یسن نے دو لٹچ بڑھانے کا فیصلہ کیا جس سے بلب جل گیا۔ ۲۱ سمبر ۱۸۷۹ء کو ایڈ یسن کی برقی چمکتی ہو ئی روشنی کی ایجاد ن د نیا کو ششدر کر دیا ۔ ایڈ یسن تمام دنیا میں مینلو پارک کا جادو گر کے نام سے مشہور ہوگیا۔ ایڈ یسن نے برقی روشنی کا پیٹنٹ جنوری۱۸۸۰ء میں حا صل کیا۔ ایڈ یسن نے بلب کی ایجاد کے لیے ۷۰۰۰۰ سے زائد تجربات کیے۔
۱۸۸۷ء میں ایڈ یسن نیوجرسی میں ویسٹ اور نج کی بڑی اور جدید لیبا رٹری میں منتقل ہوگیا۔وہا اس نے زیادہ تر وقت اپنیا یجادو ں کومکمل کرنے میں صرف کیا۔اس نے اپنی ایجادوں کی تیاری کے لیے بہت سی کمپنیوں کی تنظیم کی ۔۱۸۸۰ء کے عشرے کے آخر میں ایڈ یسن نے متحرک تصویروں اور فلموں کی تیاری میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس نے جارج ایسٹ مین اور دوسروں کی ا یجادوں کی بنیاد پر ایک کمیر ہ بنا یا۔ ۱۹۱۴ء میں ایڈ یسن نے بولتی ہوئی تصویریں بنانے کے لیے فونوگریف اور کمیرے کو جوڑ دیا ۔ مشین نے کچھ خامیاں دکھائیں اور ایڈ یسن نے اسے ایک طرف ڈال دیا ۔دوسرے لوگوں نے بعدازاں خامیوں کو دور کیا ۔ پہلے پہل لوگوں نے متحرک فلموں کو ایک کھلونا خیال کیا لیکن ایڈ یسن نے ان کو اس امید سے دیکھا کہ یہ تعلیم دینے کا زریعہ ہوں گی۔اس نے پیش گوئی کی ایک دن یہ تعلیم دینے کے دوسرے طر یقوں کو بدل دیں گی۔
اس کی کچھ بعد کی ایجادوں اور اختر اعات میں اسٹوریج بیڑی ٹیسی میٹر، سیمنٹ مکسر،ڈکٹا فون اور فوٹوکا پی مشین شامل ہیں۔اس کی پہلی پیٹنٹ ایجاد(گولدن راڈ پودے سے مصنوعی ربر بنانے کا طریقہ)تک ایڈ یسن نے معاشرے میں اپنی شرکت ایک ہی رفتار سے جاری رکھی۔وہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو ۸۴ سال کی عمر میں ویسٹ اور نج میں انتقال کر گیا۔

ا یڈ یسن کے دو ست

ایڈ یسن کا کوئی خاص قریبی دوست نہیں تھا ۔وہ اکثر ہنری فورڈ،ہا روے فا ئرسٹون اور جان باروز کے ساتھ رہنا پسند کرتا تھا۔لیکن وہ کئی گھنٹوں تک لگا تار سخت محنت کرتا کہ اس کے پاس دوستوں کے لیے زیادہ وقت ہی نہ ہوتا تھا۔ ایڈ یسن کی پوری زندگی میں اس کا کام ہی اس کی حقیقت خوشی اور دوست رہے۔
ایڈ یسن موسیقی کا دلدادہ تھا۔ اپنے بہرے ہونے کے باوجود اس نے دعوی کیا کہ فونوگراف کے اسپیکر کو اپنی کھوپڑی کے ساتھ رکھ کر سن سکتا تھا۔ ایڈ یسن مزہبی انسان نہیں تھا لیکن وہ عظیم ذہانت پر یقین رکھتا تھا۔ایک دفعہ اس نے اپنے دوست کو بتایا اگرچہ وہ دنیا میں ایک عظیم موجد کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن وہ زندگی کی ایک سادہ چیز کو بھی تخلیق نہیں کر سکتا ۔
دنیا کے لیے ایڈ یسن کا سب سے اہم کام نہ صرف برقی روشنی ایجاد تھا بلکہ اس کا لکھوں لوگوں تک پہنچانے کے لیے دنیا کے پہلے بجلی گھر کا نقشہ بھی اسی نے تیار کیا ۔
ا یڈ یسن کو اس کی کامیابیوں پر اتنے زیادہ ایوارڈملے کہ اس کو کہنا پڑا کہ مجھے ان کو تولنے کے لیے ایک ترزو درکار ہے۔ ۱۹۵۶ء میں ا یڈ یسن کی لیبارٹری کو قومی ورثہ قرار دیاگیا۔ ۱۹۵۹ء میں اس کے گھر کو بھی قومی ورثہ قرار دیاگیا۔غراض یہ ہے کہ صرف زندگی میں ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی؂ایڈ یسن کے حصہ میں وہ عزات اور شہرات آ ئی، جو بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

Article / Essay on thomas edison in Urdu

thomas edison ki Ijaadat aur Znidagi

information about bulb in Urdu

history of bulb in Urdu bulb ki ejad mazmoon in.urdu

Abdul Rauf

Teacher, Innovator, Love to create, explore new ways to view & imagine things and then make them real

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *