انسان کے جسم میں تقریبا تین ارب خلیات پائے جاتے ہیں۔صحت مند انسان میں نئے خلیے صرف اس صورت میں تقسیم ہو کر اپنی تعداد بڑھا تے ہیں،جب کسی چوٹ یا ضرب کی بنا ء پر ان میں سے کچھ ضائع ہو جائیں ،جیسے ہی ان کی تعداد پوری ہو جاتی ہیان کی تقسیم اور تعداد کا بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے ۔کینسر یا سرطا ن خلیوں کے بننے کے اس فطری عمل میں تبدیلی لاتا ہے اور خلیوں کے تعداد میں مسلسل اضا فہ کرتا رہتا ہے۔ انسان کی بد قسمتی یہ ہے کہ اکثرحالات میں کینسر پھیلنے کا ابتدائی عمل خاموشی سے جاری رہتا ہے۔ صحت مند جسم کے ا ندر خلیات مضبوطی سے آپس میں جوڑے ہوتے ہیں، لیکن کینسرکی صورت میں وہ ایک دوسرے سے ٹوٹ کر الگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور خون کی رگو میں داخل ہو کر جسم کے کسی بھی حصے میں پہنچ جاتے ہیں۔
تمباکو نوشی میں مبتلا افراد ا بتدائی طور پر کھانی اور بلغم کی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔دراصل ، تمباکو میں شامل مختلف اجزاء جسم کے اندرونی اعضاء مثلاً منہ، حلق،سا نس کی نالی اورپھیپھڑوں کو خاموشی سے متاثر کرتے رہتے ہیں۔اکثر تتمباکو نوشی سے ان اعضاء پر سوز ش پیدا ہوتی ہے ،جو بعدازاں کینسر کی شکل میں اختیار کرلیتی ہے۔
دنیا بھر میں تمباکو نوشی پھیپھڑوں کے سرطان کی اہم وجہ ہے۔تمباکومیں پائے جانے والے وہ اجزاء،جو سرطان کا موجب بنتے ہیں ،انہیں کا رسی نوجن کہا جاتا ہے۔
تمباکو کے دھوائیں میں ایسے ۴۸ عوامل پائے جاتے ہیں ، جو کینسر کا موجب بن سکتے ہیں ۔اس میں ایرومیٹک امائنز ، نائٹروز امائن، ایرو میٹک ہائیڈرو کاربن اور کائی کول وغیرہ نمایا ہیں۔ پھیپھڑوں کا کینسر تمباکو نوشوں کی ایک عام بیماری ہے۔لیکن اس کے علاوہ بھی تمباکو نوشی سے کئی اور طرح کے جان لیوا کینسرہو سکتے ہیں ، مثلاً حلق کا کینسر، منہ کا کینسر،غزا کی نالی کا کینسر، معدے کا کینسرو غرہ۔
سررچر ڈڈول اور میڈیکل ریسرچ کونسل کے پروفیسرآسٹن بریڈ فورڈہل نے پہلی بارتمباکو نوشی اورپھیپھڑوں کے درمیان کینسر کے تعلق کا ا پنی مشہور زمانہ عالمی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا۔ یہ رپورٹ ۱۹۵۰ء میں برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب لندن کے ہسپتالو ں میں داخل پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں پر مشاہدوں اور سروے پر مبنی تھی۔اس جائزے کے نتیجے میں دنیا کے سامنے یہ تہلکہ خیز انکشاف ہوا کہ سگرٹ نوشی ،پھیپھڑوں کے کینسر کی واحد وجہ ہے۔ اس تحقیقی جائزے میں ثابت کیا گیا ہے کہ سگر ٹ نوشی سے پر ہیز کرنے والے ا فراد کینسر کا بہت کم شکار ہوتے ہیں۔اس رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا کہ سگرٹ نوش جتنی مقدار میں دھواں جزب کرتے ہیں،وہ اتنی ہی جلدی کینسر کا لقمہ بنتے ہیں۔
اس کے قبل یعنی ۱۹۵۰ء تک دنیا بھر میں سگرٹ نوشی کو مضر صحت نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ اسی لیے بر طانیہ کی وزارت صحت کو سرر چر ڈڈول کی تحقیق پر سنجیدگی سے غور کرنے میں تقریباً ۷ سال کا عرصہ لگا۔اس دوران سگرٹ ساز کمپنیوں نے بھی اپنی مہم کا آغاز کرد یا ،جنہوں نے فضائی آلودگی کو پھیپھڑوں کے کینسر کی اصل وجہ قرار دیا۔
۱۹۵۸ء میں سرر چر ڈڈول اور بریڈ فور ڈ نے اپنی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے۳۴ ہزار سگرٹ نوشی افراد کی عا دات کا مشاہدہ کیا۔یہ سلسلہ ۲۰ سال تک جاری رہا۔ ان کے تحقیقی نتائج کے مطابق عام طور پر سگریٹ نوش افراد زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہتے ۔انہوں نے اس خیا ل کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس سے قبل سگریٹ نوشی ہونے والے جن نقصانات کا اندازہ لگایا گیا تھا،در حقیقت یہ نقصانات ان اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں ، جو وعموماً ۳۵ سال کی عمر میں ظاہر ہوتے ہیں۔ان کی تحقیق کے مطابق کثرت سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا بیشتر ا فراد ۷۰ سال کی عمر تک بھی نہیں پہنچ پا ئے۔
انسان جسم میں اوجی جی نامی ایک خامرہ (ا ینز ئم) پا یا جاتا ہے جو تمباکو کے دھوئیں میں شامل سالمات کے اثرات کو کم کرنے کی صلا حیت رکھتا ہے۔ محققین کے مطابق جن تمباکو نوشوں میں اوجی جی جیسے خامروں کی کمی ہوتی ہے، وہ کینسر کا بہ آسانی شکار بنتے ہیں۔ عام طور پر بکثرت تمباکو نوشی میں مبتلا افراد میں ۱۰ سے ۱۶ فیصد پھیپھڑوں کے کینسرمیں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہر قسم کے کینسر سے ہونے والی ۳۰ فیصداموات کا سبب اور پھیپھڑوں کے ۸۵ فیصد کینسر کی وجہ تمباکو نوشی ہی ہے ۔ تمبا کو نوشی کا جھو ڑا ہوا دھواں اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ محض اس کا دھواں سونگھنے کی وجہ سے وہ افراد بھی کینسر کا شکار ہوسکتے ہیں،جو تمبا کو نو شی سے پر ہیز کرتے ہیں ۔ ایسے افراد میں کینسرکی شر ح ۲۵ فیصد ہے۔
کم تار گول والی سگریٹ پینے والے افراد غدودی رسولی کے مہک کینسر کا شکار ہوسکتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ ایسے افراد سگریٹ کا دھواں ز یادہ گہرے کش لگا کر پھیپھڑوں میں داخل کرتے ہیں جس سے ان کے پھیپھڑوں کے ا نتہائی چھوٹے ریشوں میں تمباکو کے زیادہ سے زیادہ ذرات جذب ہو جاتے ہیں ۔
تقریباً ۲۵ فیصد مریض چھوٹے خلیات کینسر کا شکار ہوتے ہیں ۔یہ کینسر بڑی سرعت سے جلدی لمفاوی گلٹیوں اور دماغ میں پھل جاتی ہے۔
یہ کینسر کی عام قسم ہے۔زیادہ تر مر یض اسی کا شکار ہو تے ہیں۔تمبا کو نو ش افراد ۴۵ سال بعد ان دو نو ں ا قسام کے کینسر شکار ہو سکتے ہیں۔
عام طو ر پر ا بتداء میں کینسرکی کو ئی علا ما ت ظا ہر نہیں ہو تی؛لیکن و قت گزرنے کے سا تھ اس کی جوعلا ما ت ظا ہرہو تی ہیں ،وہ درج ذیل ہیں:
ََِِِؐ۱۔کھا نسی مسلسل ر ہنا.
۲۔سینے میں درد.
۳۔سانس کی تکلیف.
۴۔سینے میں خرخراہٹ کی آواز.
۵۔مر یض ا کثر و بیشتر نمو نیہ اور برو نکا ئیٹس کا شکار رہتا ہے.
۶۔کھا نسی کے ساتھ بلغم میں خون آنا.
۷۔چہرے پر سوجن.
۸۔وزن میں کمی اور نقاہت میں ا ضافہ.
خوردنی تمبا کواور نسوارکا بر صغیر پا ک و ہند میں استعمال عام ہے؛بلکہ اٹھار ہویں صدی تک دنیا بھر میں تمبا کو کا استعما ل نسوارکے زریعہ ہی ہو تا تھا،پھر ا نیسو یں صدی میں سگار اور بیسو یں صدی میں سگر یٹ نے اس کی جگہ لے لی۔نو جو دہ دور میں خوردنی تمبا کوکے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔اس وقت خشک نسوار، نم دار نسوار،عام نسوار،ست والی نسوار،سبز نسوار،کالی نسوار،بنو صوابی اور چمن کی نسوار کے علاوہ حو یلیاں کی نسواراورگٹکا،کھینی نرم پتا،چیموں،مشری،مراس،پلگ،شمعاورتمباکو ٹکیہ و غیرہ کا شمار چو سنے یاخوردنی تمباکو میں ہو تا ہے۔چبانے والے تمبا کو میں پا ن،چھالیہ،اک مک،کھیوام،ماوا،ینگ،نرم پتا،اور زردہ شامل ہیں۔
پاکستان میں نسوار کی۵۰ سے زائداقسام تیار کی جا تی ہے۔تمبا کوکے اجزاء نکو ٹین پایا جاتا ہے جو منہ کی رطوبتوں میں شامل ہو کر زبان کے نچلےحصے موجو د مسامو ں کا احساس پیدا کرتا ہے ۔لیکن جیسے ہی خو ن میں نکو ٹین کی مقدار کم ہوتی ہے تو تمباکوکی بھی طلب بڑھ جاتی ہے اس طرح انسان وقتی سکون اور چستی کے لئےاس زہر کاعادی ہو جاتا ہے اور یہ ہی عادت نشہ کہلاتی ہے۔چونکہ یہ خوردنی تمبا کو سگیر یٹ کی نسبت سستا اور نظر نہ آنے وا لا نشہ ہے ۔جیسے عام طور پر بر ا یا مضر صحت خیال نہیں کیا جا تا ۔ لیکن یہ کو ئی نہیں جنتا کے اس میں کیا شامل ہے۔
خوردنی کو مضر صحت نہ سمجھنے وا لو ں کا کہنا ہے کہ اس میں د ھواں نہیں ہوتا ،اس لئے یہ سگیر یٹ کے مقابلے میں مضر صحت نہیں۔ان کے اس خیال میں کتنی سچائی ہے، آیئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ تمبا کو،پان، نسوار،اوران سے تیار کردہ دیگر اشیاء کا استعمال کن کن بیماریوں کو دعوت عام دیتا ہے۔
منہ کا کینسر عموماًاسی جگہ د یکھا گیا ہے جس جگہ پر تمبا کو(کسی بھی شکل میں)ر کھا جا تا ہے۔مثلاً ہونٹ ،زبان ،اور گال کی اندرونی طرف۔ہو نٹ کا کینسرمنہ کے دا ئیںیا بائیں کسی بھی طرف ہوسکتا ہے۔یعنیمنہ میں جس جگہ سگریٹ یا تمبا کورکھا جا تا ہے، عموماً وہی حصہ جلدکینسرکا شکا ر ہ تا ہے۔یوں تو کینسرمنہ میں کسی بھی مقام پر ہوسکتا ہے لیکن ۸۰ فیصد نشے کے عادی افرادمیں ہونٹ کے کناروں پر ہی نہ ٹھیک ہو نے والا ز خم ( کینسر)د یکھا گیا ہے۔
سب سے پہلے ہونٹ کے کنارے(اوپریانیچے)معمولی ز خم یہ دانہ نمودار ہوتاہے۔کبھی دانہ کا منہ بند ہوتاہے اور کبھی پھٹی ہو ئی جلدکے ساتھ۔ا گریہ دانہ پھٹی ہوئی جلدکے ساتھ ہو توا سے السر کہتے ہیں اور اگر دانہ کا منہ بند ہو تو اسے سوجن کہا جاتاہے۔عام طورپر لوگ السر کی اصطلاح صرف معدے کیلئے استعمال کرتے ہیں حالانکہ السرجسم کے کسی بھی حصہ میں ہوسکتا ہے۔طبی زبان میںیہ زخم کوکہا جاتاہے جس میں جلد پھٹ جائےاور جس میں جلدکے نیچے کا کچا گوشت نمایاں ہوجائے۔یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ ہر جگہ کا السر کینسر کا روپ نہیں دھارتا۔عام قسم کے السرتو معمولی احتیاط اور علاج سے بہتر ہوجاتا ہے لیکن ایسا السر جس میں کینسر کے خلیے جنم لے چکے ہوں، وہاں عام قسم کی تز ترین ادویہ بھی اپنا اثر نہیں دکھاپاتیں۔
کینسر اگر زبان پر نمودار ہوتواس کی بھی سب سے بڑی وجہ پان،تمباکو یاچھالیہ کا استعمال ہے۔یہ کینسر بھی معمولی زخم کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور بعد ازاں، پھول کردانہبن جاتاہے،پھر یہ ہی دانہ پھٹ کر السر کی صورت اختیار کر لیتاہے اور یہ صورت کینسر کہلاتی ہے۔اس کے بعد تعداد کے اعتبارسے زبان کی نوک پر ہونے والا کینسر،دوسرے نمبر پر ہے ۔
منہ کے کینسر کا امکان عورتوں کی نسبت مرودں میں زیادہ دیکھا گیاہے۔جس سے زیادہ ترمریضوں کی عمر۴۰سال سے زائد ہے اور ان میں سب سے زیادہ تعداد تمباکونوش، شراب نوش،تمباکو خورافراد کی ہے۔مزیدبرآں تمباکونوشی سے خون کی نالیوں میں ایتھریوا سکلروسس نامی ایک خاص قسم کی بیماری پیدا ہو تی ہے۔جس کی وجہ سے دل کے اطراف خون کی نالیاں تنگ ہوجاتی ہیں اس طرح دل کی طرف دوران خون میں کمی ہو جاتی ہے،جودل کے دورے یا ہارٹ ا ٹیک کا سبب بنتا ہے۔جن لوگوں منہ،حلق،غذا کی نالی یا پھیپھڑے میں پہلے گٹلی رہ چکی ہوتو انہیں غیر معمولی ا حتیاط کی ضرورت ہے اور باقاعدگی سے اپنے منہ کا معائنہ کراتے رہنا چا ہیے۔
ایک نار گٹلی بن جائے تو یہ چاند ہفتوں میں اپنی جسامت کو دگنا کرسکتی ہے۔بعض اوقات آنے والے خطرات کااعلا ن گردن کے بڑھتے ہوئے غدودکے زریعے بھی ہوتا ہے،یعنی غدودکا بڑھنا پہلی ٹھوس علامت ہے۔کینسر کی علامت مختلف ہوتی ہیں لیکن زبان کے کینسر کی پہلی علامت عام طور پر درد کا ہونا ہے۔جو اکثر کان کی طرف بڑھتا ہے۔دوسری علامت یہ ہے کہ زبان سخت، اکڑی ہوئی اور ذرا مختلف معلوم ہو تی ہے۔
ما ہر ین کے مطابق اگر منہ کے اندر کوئی زخم دو ہفتے کے اندر مندمل نہ ہوتو فوراًاس کی تشخیص کرائی جائے۔عموماً معالج حضرات منہ کے معائنے کے دوران منہ کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا پتا لگا لیتے ہیں۔یہ نشانیاں سفید چکتوں یا گہرے سرخ دھبوں کی شکل میں بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔
منہ میں جس جگہ تمباکو رکھا جاتا ہے،وہاں تمباکوکے عرق کی وجہ سے سوزش زدہ ہو جاتی ہے اور ایک معمولی سی ابھری ہوئی سفید لکیر نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہے۔اسی جگہ تقشراللسان یالیوکو پلکیہ پیدا ہوتا ہے۔بعدازاں یہ مختلف سائزاختیار کرلیتاہے۔یہ کینسر کا پہلادرجہ ہے اور اس کا اگر بروقت علاج نہ کیا جائے توبہت جلد متعلقہ جگہ پر کینسر بن جاتاہے۔
تمباکو میں شامل نکوٹین خون میں شامل ہوکردل کے امراض کا باعث بنتا ہے۔مثلاً دل کی دھڑکن بڑھنے اور بلڈپریشر میں مسلسل اضافے سے پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں،جودل کے دورے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
تمبا کواور نسوارکااستعمال چہرے کی رنگت خراب کر کے داغ دار کرتا ہے، بلکہ دانتوں کو بھی نقصان پہنچاتاہے۔تمبا کوکی وجہ سے دانتوں کی حفاظتی تہہ اینیمل اتر جاتی ہے اور دنت اپنی جگہ چھوڑنے لگتے ہیں اس کہ علاوہ دانتوں میں ٹھنڈا گرام لگنے کی بھی شکا یت پیدا ہوجاتی ہے اور کیڑا لگنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
منہ کے اندر اگر درج ذیل میں سے کو ئی علامت پیدا ہو تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھئے:
۱۔منہ میں چھالہ جس کو چھونے سے خون جاری ہوجائے.
۲۔ منہ یا گردن میں کسی مقام پر گٹلی محسوس ہونا.
۳۔منہ کے کسی حصہ میں درد یا سو جن، جو مسلسل بر قرار رہے.
۴۔چبانے یا زبان کے ہلانے سے تکلیف ہو نا.
۵۔جبڑا ہلانے سے شدید تکلیف ہو نا.
پا کستان میں خورد نی تمباکو کے ساتھ چھا لیا کا استعمال بھی بہت عام ہے۔ چھا لیا کے استعمال سے ایک انتہائی تکلیف دہ مر ض لا حق ہو جاتا ہے۔اس منہ کے پھٹوں کی لچک ختم ہوجاتی ہے اور مریض پوری طرح منہ نہیں کھول سکتا اور یہاں تک کہ کھا نہ اور پینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
شیشہ، یہ عام کھڑ کیوں میں لگا نے والے شیشے کی بات نہیں بلکہ یہ حقے کی جدید قسم ہے،اسے پاکستان اور مصر میں شیشہ،لبان میں نرگلا، اور انگریزی میں حقہ کہاجاتاہے۔شیشہ نوشی کا آغاز تقریباً ۵۰۰ برس قبل ترکی میں ہوا اور مشرق وسطی میں وباء کی طرح پھیل گیا۔پاکستان میں یہ وباء چند برس قبل پھیلی ہے۔ روایتی حقے اور شیشہ میں فرق یہ ہے کہ اس کی چلم میں مختلف پھلوں ذائقوں سے بنا ہوا ایسا آمیزہ رکھاجاتاہے جس کے کش لینے سے پھلوں کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔یعنی اس میں استعمال کئے جانے وا لے تمباکومیں مختلف قسم کے پھلوں کا ذائقہ ملا دیا جاتاہے،اس کے د ھو ئیں سے خوشبوسگر یٹ کے بر عکس خوشگوار کیفیت طاری کرتی ہے۔حقے کی یہ قسم(یعنی شیشہ)مختلف ہوٹلوں،بازارو اور چند میڈیکل اسٹورز پر بھی دستیاب ہے۔
حکو مت سندھ نے شیشے کے نشے پر پابندی عائد کردی ہے،دوسری جانب کراچی میں ایک حالیہ سروے کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے لڑکے لڑکیوں میں سے ۵۰ فیصد شیشے کے نشے کا استعمال کرچکے ہیں،جن میں ۷ سال کے بچہ بھی شامل ہیں۔ شیشے کے استعمال کو اب سماجی حیثیت حاصل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے یہ گھروں کی ز ینت بننے لگا ہے اور مہمانوں کو پیش کرنا جدید فیشن کا حصہ بن چکا ہے۔شیشے کا حقہ اور اس میں استعمال کیا جانے والا تمباکو تمام بڑے شہروں کے ڈ یپار ٹمنٹل اسٹورز اور میڈیکل اسٹورز پر دستیاب ہے۔ میڈیکل اسٹورز ،جہاں پر زندگی بچانے والی ادویہ ملتی ہیں،وہیں پرشیشے کی دستیابی انتہائی حیرات انگیزہے۔ شیشے یا حقے کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چونکہ حقہ یاشیشے کے زریعے سے دھواں پا نی میں سے ہوکر حلق میں جاتاہے اس لئے یہ نقصان دہ نہیں ہوتا ،لیکن یہ محض ایک مغالطہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کے نقصانات بھی سگریٹ نوشی کے برابر بلکہ کسی حدتک زیادہ ہیں؛کیونکہ سگریٹ کا سائز چھوٹا ہو تا ہے اس لئے سگریٹ جلد ختم ہوجاتی ہے،جس کے بعد ممکن ہے کہ سگریٹ نو ش دوسری سگر یٹ نہ سلگائے یا پھر کچھ دیر بعد سلگائے۔لیکن شیشے کے نشے کے زریعے وہ ایک ہی بار میں دس سے پندرہ سگر ئٹ کے برابرکا دھواں اپنے اندر داخل کر نے کے لئے قابل ہوتاہے۔
حقہ یا شیشے سے کار بن مو نوآ کسا ئیڈ اور دیگر زہریلے مادے بہت زیادہ مقدار میں خارج ہوتے ہیں۔شیشے کا دھواں بھی سگر ئٹ کے دھوائیں کی طرح آس پاس کے افراد کو متاثر کرتا ہے۔حقہ یا شیشہ نوشی کرنے والوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے تک شیشہ نوشی کے بعد وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے، اس کی بڑی واجہ اس کہ نشے کے زریعے نکو ٹین کی
ایک بڑی مقدار ان کے جسم میں سرائیت کر چکی ہو تی ہے۔اس طرح وہ شیشے کے نشے کا عادی بن جاتے ہے۔
Essay on smoking in urdu, cancer disease and cancer information in urdu language. Side Effects of Smoking